جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات 2024 میں کون سی سیاسی پارٹی جیتے گی؟
حیدرآباد۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی اگزیکیٹوکمیٹی کی رکن محترمہ اسما زہرہ نے کہا ہے کہ بعض خواتین کے ذریعہ طلاق ثلاثہ اور اس کے بعد گزارہ بھتہ کو لے کر سپریم کورٹ جانے کے معاملہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے جبکہ ملک کی خواتین کی اکثریت مسلم پرسنل لا بورڈ کی حمایت میں ہے۔ اسما زہرہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم پرسنل لا مسلمانوں کا دستوری حق ہے اور مسلمان ملک کی آزادی کے 60سال سے اپنے مسائل مسلم پرسنل لا کے مطابق حل کرتے آئے ہیں۔ تاہم گزشتہ دو سال سے موجودہ حکومت نے ایک کے بعد ایک ایسی کوششیں کی ہیں کہ جس سے اقلیتوں کے حقوق کو چھینا جائے ۔انہوں نے کہا کہ طلاق ثلاثہ کامسئلہ پیدا کیا گیا ہے۔اس کے ذریعہ مسلم پرسنل لا میں چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اسی وجہ سے اس کی مخالفت کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لا کمیشن کے سوالنامہ پر تمام مسلم تنظیموں اورمسلم مذہبی رہنماوں نے غورکیا اور یہ طئے ہوا کہ یہ یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے اور مسلمانوں کے دستوری حقوق چھیننے کی ایک کوشش ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ طلاق ثلاثہ مسلم سماج کا مسئلہ نہیں ہے جہاں مردوں کو طلاق کا حق دیا گیا ہے تو وہیں عورتوں کو بھی خلع کا حق دیا گیا ہے۔ مسلم پرسنل لا کے تمام قوانین متوازن ہیں۔ یہ دلیل دینا کہ طلاق ثلاثہ کی وجہ سے کئی خواتین متاثر ہیں سراسر جھوٹ ہے اور یہ ایک ہیجان پیدا کرنے کی کوشش ہے۔اس طرح یہ مسلم پرسنل لا میں مداخلت کی کوشش ہے۔
پورے ملک کی دس کروڑ مسلم خواتین اپنے پرسنل لا کو بچانا
چاہتی
ہیں کیونکہ اگر ہمارا پرسنل لا ہم سے چھین لیا جائے تو ہماری بھی وہی
حالت ہوگی جو دوسرے سماجوں میں خواتین کی ہوئی ہے۔اسی لیے ہم اپنے مسلم
پرسنل لا کو بچانا چاہتے ہیں۔ حکومت او رسپریم کورٹ سے بھی یہ کہا جارہا ہے
کہ کسی بھی قسم سے ان قوانین میں چھیڑ چھاڑ نہیں ہونی چاہئے۔
اسما زہرہ نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ہم پر ظلم ہوگا۔ ہمارے قوانین میں چھیڑ چھاڑ دراصل ظلم ہے۔ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر بعض خواتین کی جانب سے سپریم کورٹ سے رجوع ہونے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک ایک آزاد ملک ہے۔
جس کسی کو مسلم پرسنل لا پر عمل نہیں کرنا ہے، ان کے لیے اسپیشل میریجس ایکٹ موجود ہے تاہم یہ کہنا کہ مذہب کو تبدیل کیا جائے سراسر غلط ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان آزادملک ہے جس کسی کو مسلم پرسنل لا ماننا ہے وہ مانے جس کوہندو لا ماننا ہے وہ ایسا کرسکتا ہے اور جو دونوں قوانین نہیں ماننا چاہتے ان کے لیے ملک میں لیو ان ریلیشن شپ ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ موجودہ حکومت بعض خواتین کا استعمال کر رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ ہندو لا 1955میں بنایا گیا ۔اس میں ترمیم کی جاسکتی ہے لیکن ہمارا مسلم پرسنل لا ہم نے نہیں بنایا ہے بلکہ یہ اللہ کا قانون ہے ۔ یہ ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے ۔ یہ قانون قرآن مجید اور احادیث شریف میں ہے ۔
اسی لیے ہم اس کو مان کر ہم اس پر عمل کررہے ہیں،اس کو بچا رہے ہیں اور اس
میں تبدیلی سے روک رہے ہیں۔ ہمارے قانون کو دوسرے قانون سے جوڑکر دیکھنے
کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔